سنہرے موتی
سنہرے موتی
پسرِ خلیل کی سیکھ ادا جو ہے ذبح ہونے کی آرزو
ماہ ذی الحجہ کئی ایک ایمان افروز واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ ان واقعات کو پڑھ کر اور سماعت کر کے مسلمانوں میں صبر و استقامت‘ اطاعت و فرمانبرداری اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ ان واقعات میں سرفہرست حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا وہ عمل ہے جو انہوں نے اپنے رب کے حکم پر اس کی رضا و خوشنودی کے لئے کیا تھا ۔ پوری تاریخ انسانی میں اس طرح کے واقع کی مثال نہیں ملتی ۔ اس عظیم واقع کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن حکیم میں بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ۔ آئیے ہم بھی اس واقع کی روشنی میں اپنے ایمان کو جلا بخشیں ۔ امر واقع یہ ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام جب بڑھاپے کو پہنچے تو ان کے گھر کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے اللہ کے حضور دعا کی رب ھب لی من الصالحین ” اے میرے رب مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما ۔ “ بارگاہ ایزدی میں یہ دعا فورا قبول ہوئی اور جو اب ملا فبشرنہ بغلام حلیم ( الصفت ) ” ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی خوش خبری دی ۔ “
اب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوتی ہے ۔ اس سے گھر میں خوشی و مسرت کے شادیانے بج اٹھتے ہیں ۔ حضرت خلیل علیہ السلام بچے کی ولادت پر اپنی جگہ شاداں و فرحاں ہیں جبکہ حضرت ہاجرہ اپنی جگہ مسرور ہیں ۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام پر ایک بڑی کٹھن اور مشکل آزمائش آن پڑی ۔ حکم الٰہی ہوتا ہے کہ اے میرے خلیل اس دودھ پیتے بچے کو اور اس کی ماں کو بواد غیر ذی زرع ( اللہ امرک بھٰذا ؟ ) ” کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے ؟ “ فرمایا ہاں مجھے اللہ نے یہ حکم دیا ہے ۔ یہ سن کر حضرت ہاجرہ کے دل کو تسلی ہو گئی اور فرمانے لگیں ( ( اذن لایضیعنا ) ) آپ تشریف لے جائیں اللہ ہمیں ہر گز ضائع نہیں کرے گا ۔ “ حضرت ہاجرہ واپس آئیں اور اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو گود میں لیکر اس سنسان وادی اور ہو کے عالم میں اللہ تعالیٰ پر متوکل ہو کر بیٹھ گئیں ۔ ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ثنیہ کے پاس پہنچے گے جہاں آپ اپنے بیٹے اور بیوی کی آنکھوں سے اوجھل ہوں گے تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کی ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم , میں چھوڑ آؤ ۔ حضرت خلیل علیہ السلام نے سرمو انحراف نہ کیا ۔ اونٹنی پر سوار ہوئے بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لیا اور اس جگہ کی تلاش میں چل نکلے ۔ جب صحرا میں پہنچے تو دیکھا کہ یہاں نہ تو کوئی انسان ہے‘ نہ پانی اور نہ ہی کوئی سایہ دار درخت ہے سمجھ گئے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اللہ نے بیوی اور بچے کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے ۔ حضرت خلیل علیہ السلام بیٹے کو حضرت ہاجرہ کی گود میں بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور پانی کا مشکیزہ رکھ کر واپس پلٹے تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہ نے آواز دی
اے اللہ کے خلیل ہمیں اس بے آب و گیاہ اور ویران صنہیں حرا میں تنہا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں‘ یہاں ہمارا کوئی مونس و غم خوار ۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہ ہی نہ دی ۔ حضرت ہاجرہ کے بار بار کہنے پر جب خلیل علیہ السلام نے التفات نہ فرمایا تو حضرت ہاجرہ فرماتی ہیں
یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہی کی برکت ہے کہ مکہ مکرمہ میں پھلوں کے باغات نہ ہونے کے باوجود وہاں دنیا کا ہر پھل میسر ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام یہ دعا کر کے چل دئیے ۔ ادھر حضرت ہاجرہ بچے کے ساتھ وقت گزارنے لگیں ۔ تھوڑی سی کھجوریں اور پانی چند روز میں ختم ہو گیا ۔ کھانے اور پینے کو کچھ پاس نہیں‘ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک اور پیاس سے بلک رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اس نبی زادے کا پھول سا چہرہ مرجانے لگا ۔ کسی انسان کا ادھر سے گزر نہیں‘ پانی کا میلوں تک نشان نہیں ہے ۔ آخر ماں سے ننھی سی جان کا یہ حال دیکھا نہ گیا تو وہ پانی کی تلاش میں صفا پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر اطراف میں نظر دوڑاتی ہیں کہ کوئی انسان آتا جاتا نظر آ جائے ۔ لیکن کوئی نظر نہیں آتا اور مایوس واپس آتی ہیں ۔ وادی میں پہنچ کر دامن اٹھا کر دوڑتی ہوئی مروہ پہاڑی کی طرف جاتی ہیں وہاں سے مایوس ہو کر واپس صفا پہاڑی پر چڑھ جاتی ہیں ۔ سات مرتبہ ایسا ہی کرتی ہیں ۔ ہر بار بچے کو دیکھ بھی جاتی ہیں کہ کوئی درندہ حضرت اسماعیل کو نقصان نہ پہنچائے ۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا صفا اور مروہ کی سعی حاجی جو کرتے ہیں اس کی ابتداءیہی ہے
( تفسیر ابن کثیر جلد اول ص 203 )
بچے کی حالت لمحہ بہ لمحہ بگڑتی جا رہی ہے ساتویں بار ماں کا چہرہ آسمان کی طرف اٹھتا ہے ۔ اللہ اگر بچہ دینا ہی تھا تو میری آنکھوں کے سامن
سنہرے موتی
پسرِ خلیل کی سیکھ ادا جو ہے ذبح ہونے کی آرزو
ماہ ذی الحجہ کئی ایک ایمان افروز واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ ان واقعات کو پڑھ کر اور سماعت کر کے مسلمانوں میں صبر و استقامت‘ اطاعت و فرمانبرداری اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ ان واقعات میں سرفہرست حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا وہ عمل ہے جو انہوں نے اپنے رب کے حکم پر اس کی رضا و خوشنودی کے لئے کیا تھا ۔ پوری تاریخ انسانی میں اس طرح کے واقع کی مثال نہیں ملتی ۔ اس عظیم واقع کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن حکیم میں بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ۔ آئیے ہم بھی اس واقع کی روشنی میں اپنے ایمان کو جلا بخشیں ۔ امر واقع یہ ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام جب بڑھاپے کو پہنچے تو ان کے گھر کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے اللہ کے حضور دعا کی رب ھب لی من الصالحین ” اے میرے رب مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما ۔ “ بارگاہ ایزدی میں یہ دعا فورا قبول ہوئی اور جو اب ملا فبشرنہ بغلام حلیم ( الصفت ) ” ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی خوش خبری دی ۔ “
اب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوتی ہے ۔ اس سے گھر میں خوشی و مسرت کے شادیانے بج اٹھتے ہیں ۔ حضرت خلیل علیہ السلام بچے کی ولادت پر اپنی جگہ شاداں و فرحاں ہیں جبکہ حضرت ہاجرہ اپنی جگہ مسرور ہیں ۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام پر ایک بڑی کٹھن اور مشکل آزمائش آن پڑی ۔ حکم الٰہی ہوتا ہے کہ اے میرے خلیل اس دودھ پیتے بچے کو اور اس کی ماں کو بواد غیر ذی زرع ( اللہ امرک بھٰذا ؟ ) ” کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے ؟ “ فرمایا ہاں مجھے اللہ نے یہ حکم دیا ہے ۔ یہ سن کر حضرت ہاجرہ کے دل کو تسلی ہو گئی اور فرمانے لگیں ( ( اذن لایضیعنا ) ) آپ تشریف لے جائیں اللہ ہمیں ہر گز ضائع نہیں کرے گا ۔ “ حضرت ہاجرہ واپس آئیں اور اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو گود میں لیکر اس سنسان وادی اور ہو کے عالم میں اللہ تعالیٰ پر متوکل ہو کر بیٹھ گئیں ۔ ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ثنیہ کے پاس پہنچے گے جہاں آپ اپنے بیٹے اور بیوی کی آنکھوں سے اوجھل ہوں گے تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کی ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم , میں چھوڑ آؤ ۔ حضرت خلیل علیہ السلام نے سرمو انحراف نہ کیا ۔ اونٹنی پر سوار ہوئے بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لیا اور اس جگہ کی تلاش میں چل نکلے ۔ جب صحرا میں پہنچے تو دیکھا کہ یہاں نہ تو کوئی انسان ہے‘ نہ پانی اور نہ ہی کوئی سایہ دار درخت ہے سمجھ گئے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اللہ نے بیوی اور بچے کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے ۔ حضرت خلیل علیہ السلام بیٹے کو حضرت ہاجرہ کی گود میں بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور پانی کا مشکیزہ رکھ کر واپس پلٹے تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہ نے آواز دی
اے اللہ کے خلیل ہمیں اس بے آب و گیاہ اور ویران صنہیں حرا میں تنہا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں‘ یہاں ہمارا کوئی مونس و غم خوار ۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہ ہی نہ دی ۔ حضرت ہاجرہ کے بار بار کہنے پر جب خلیل علیہ السلام نے التفات نہ فرمایا تو حضرت ہاجرہ فرماتی ہیں
یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہی کی برکت ہے کہ مکہ مکرمہ میں پھلوں کے باغات نہ ہونے کے باوجود وہاں دنیا کا ہر پھل میسر ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام یہ دعا کر کے چل دئیے ۔ ادھر حضرت ہاجرہ بچے کے ساتھ وقت گزارنے لگیں ۔ تھوڑی سی کھجوریں اور پانی چند روز میں ختم ہو گیا ۔ کھانے اور پینے کو کچھ پاس نہیں‘ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک اور پیاس سے بلک رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اس نبی زادے کا پھول سا چہرہ مرجانے لگا ۔ کسی انسان کا ادھر سے گزر نہیں‘ پانی کا میلوں تک نشان نہیں ہے ۔ آخر ماں سے ننھی سی جان کا یہ حال دیکھا نہ گیا تو وہ پانی کی تلاش میں صفا پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر اطراف میں نظر دوڑاتی ہیں کہ کوئی انسان آتا جاتا نظر آ جائے ۔ لیکن کوئی نظر نہیں آتا اور مایوس واپس آتی ہیں ۔ وادی میں پہنچ کر دامن اٹھا کر دوڑتی ہوئی مروہ پہاڑی کی طرف جاتی ہیں وہاں سے مایوس ہو کر واپس صفا پہاڑی پر چڑھ جاتی ہیں ۔ سات مرتبہ ایسا ہی کرتی ہیں ۔ ہر بار بچے کو دیکھ بھی جاتی ہیں کہ کوئی درندہ حضرت اسماعیل کو نقصان نہ پہنچائے ۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا صفا اور مروہ کی سعی حاجی جو کرتے ہیں اس کی ابتداءیہی ہے
( تفسیر ابن کثیر جلد اول ص 203 )
بچے کی حالت لمحہ بہ لمحہ بگڑتی جا رہی ہے ساتویں بار ماں کا چہرہ آسمان کی طرف اٹھتا ہے ۔ اللہ اگر بچہ دینا ہی تھا تو میری آنکھوں کے سامن
سنہرے موتی
No comments:
Post a Comment